میاں بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق
::::: بیوی پر خاوند کے حقوق :::::
::::: پہلا حق ::: اطاعت ::: یعنی تابع فرمانی :::::
بیوی پر خاوند کی تابع فرمانی فرض ہے ، یعنی جہاں تک اور جب تک اُس کی
ہمت اور طاقت میں ہو وہ خاوند کی تابع فرمانی کرے گی ، کِسی بھی حال میں وہ
خاوند کی نافرمانی نہیں کرے گی ،
::::: (١) حسین بن محصن
رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ اُنکی پھوپھی (چچی یا تائی بھی ہو سکتی ہیں
کیونکہ لفظ عمۃ اِن سب رشتوں کے لیے اِستعمال ہوتا ہے ) رضی اللہ عنھا نے
اُنہیں بتایا کہ ایک دفعہ کِسی کام سے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
پاس گئی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا ( ا ذات ُ زَوج ٍ انتِ ::: اے خاتون کیا تمہارا خاوند ہے ؟) میں نے عرض کیا :: جی :: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( کَیف َ انتِ لہ ُ )
( تُم اُسکے لیے کیسی ( بیوی ) ہو ؟) میں نے عرض کیا :: میں کِسی بھی
معاملے میں اُس کی نافرمانی نہیں کرتی سِوائے اِس کے کہ کوئی کام میری طاقت
سے باہر ہو :: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا( فَاینَ انتِ مِنہ ُ فَاِنَّما ہُو جَنَّتُکِ ونَارُکِ )( تُم
اُس سے کہاں ہو کیونکہ بے شک وہ تمہاری جنّت اور جہنم ہے ) یعنی
یہ خیال رکھنا کہ تم اُسکے حق کی ادائیگی کے معاملے میں کہاں ہو ؟ اگر اُس
کا حق ٹھیک سے ادا کرو گی تو وہ تمہارے لیے جنّت میں داخلے کا مقام ہے اور
اگر نہیں تو وہ تمہارے لیے جہنم میں داخلے کا مُقام ہے ۔ مُسند احمد /حدیث
١٩٠٢٥، کتاب عِشرۃَ النِّساء للنسائی / حدیث ٧٩/ ، صحیح الترغیب و الترھیب /
حدیث ١٩٣٣،
::::: (٢) ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (
اِذا صَلّت المَراَۃُ خَمسھَا ، و صَامَت شَھرھا ، و حَصَّنَت فرجھا ، و
اطاعَت بَعلَھا ، دَخلَت مِن ايّ ابواب الجنَّۃِ شاءَ ت )( اگر عورت (
روزانہ) اپنی پانچ نمازیں ادا کرتی ہو ، اور اپنے ( رمضان کے ) روزے رکھتی
ہو ، اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتی ہو ، اور اپنے خاوند کی تانع فرمانی
کرتی ہو ، ( اور اِس حال میں مر جائے تو ) جنّت کے جِس دروازے سے چاہے گی
جنّت میں داخل ہو جائے گی ) صحیح ابن حبان / حدیث ٤١٦٣/کتاب النکاح، صحیح الترغیب و الترھیب (حسن لغیرہ ) /حدیث ١٩٣١ ،
اِس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو بیوی اپنے خاوند کی نافرمانی کرتی ہوئی
مرے گی ظاہر ہے خاوند اُس سے راضی تو نہیں ہوگا ، اور ایسی صورت میں وہ
عورت جنّت میں داخل نہیں ہو سکے گی ، جب تک کہ اللہ کے سامنے اُس کا خاوند
اپنے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کو معاف نہ کر دے ، یہ الگ بات ہے کہ
دُنیا میں اگر کوئی خاوند '''بے چارہ ''' یا مجبور ہو اور اپنی بیوی کی
نافرمانی پر اپنے غصے یا دُکھ کا اظہار نہ کرتا ہو لیکن آخرت میں اپنی
شکایت اور حق طلبی کرنے میں کِسی کو کوئی مجبوری یا بے چارگی نہ ہوگی ۔
::::: اطاعت اور تابع فرمانی کے
بارے میں ایک بات بہت واضح طور پر سمجھ لینے والی ہے کہ کِسی کا کوئی بھی
حق یا رُتبہ ہو اگر وہ اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکموں کی
خِلاف ورزی کا حُکم دے تو اُس کی تابع فرمانی نہیں کی جائے گی ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے (
لا طَاعَۃَ فِی مَعصِیۃِاللَّہِ ، اِنَّمَا الطَّاعۃُ فِی المَعرُوفِ )(
اللہ تعالی کی نافرمانی کرتے ہوئے کسی کی بھی تابع فرمانی نہیں کی جا سکتی ،
بے شک تابع فرمانی تو صرف نیکی کے کاموں میں ہوتی ہے ) صحیح مسلم ، حدیث ١٨٤٠ ، کتاب الامارۃ باب ٨ کی بیسویں روایت ۔
::::: دوسرا حق ::: خاوند کے گھر سے بغیر اُس کی اجازت باہر نہ نکلے :::::
ایمان والوں کی مائیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس بیگمات کو اللہ تعالیٰ نے مخاطب فرماتے ہوئے حُکم دِیا ::: (
وَقَرنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجنَ تَبَرُّجَ الجَاہِلِیَّۃِ
الْاُولَی) ( اور اپنے گھروں میں قرار پکڑو ( یعنی آرام سے گھروں میں ہی
رہو ) اور پہلی جاہلیت (یعنی اسلام سے پہلے والے زمانے ) کی طرح بے پردی کے
ساتھ اِٹھلا اِٹھلا کر باہر مت نکلو ) سورت الاحزاب / آیت ٣٣،
گو کہ یہ خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس بیگمات سے ہے ،
لیکن قران میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے عام اسلوب و قانون کی طرح یہ حکم
اُمت کی تمام عورتوں کےلیے ہے ، اِسکی تائید تمام صحابیات کے عمل اور رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے ملتی ہے ،جیسا کہ :::
::::: عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (المَراَئۃُ
عَورَۃٌ و اِنَّہَا اِذَا خَرجَت اِستَشرَفَہَا الشِّیطَان ُو اِنَّہَا
لَتَکُونُ اقرَبُ اِلیٰ اللَّہِ مِنہَا فی قَعرِ بَیتِہا ) ( عور ت (ساری
کی ساری) پردے ( میں رکھنے ) والی چیز ہے اور بے شک جب وہ باہر نکلتی ہے تو
شیطان اُسکی راہنمائی کرتا ہے ( یعنی اُسے گناہ کی طرف لے جاتا ہے ) اور
عورت اپنے گھر میں ( رہتے ہوئے ) اللہ کے زیادہ قریب ہوتی ہے )السلسلۃالاحادیث الصحیحۃ/٢٦٨٨ ۔
یہ مندرجہ بالا حدیث عورت کے پردے ، اور حجاب کے انداز ، اور ’’’’’ حجاب ‘‘‘‘‘ کا معنی سمجھنے میں ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے ،
::::: تیسرا حق ::: جب خاوند ہم بستری کے لیئے بلائے تو فوراً خاوند کی طلب کو پورا کرنا :::::
اِس کی ایک دلیل تو اس مضمون میں بیان کی گئی سب سے پہلی حدیث ہے جو کہ
عبداللہ بن اوفیٰ رضی اللہ عنہُ کی روایت ہے ، اور اُس کے عِلاوہ بھی کئی
احادیث اِس بات کو بڑی وضاحت سے بیان کرتی ہیں ، جیسا کہ :::
::::: (١) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (
اِذا دَعَا الرَّجُلُ اِمراتَہ ُ اِلیٰ فِراشِہِ فابَت لَعَنَتہَا
المَلَائِکَۃُ حتی تَرجِعَ) ( اگر کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر
بلائے اور وہ انکار کر دے تو فرشتے اُس عورت پر اُس وقت تک لعنت کرتے رہتے
ہیں جب تک وہ خاوند کے پاس واپس نہیں آتی ) صحیح البخاری / حدیث ٣٢٣٧/ کتاب بدء الخلق / باب ٨٥ ، دوسری روایت ،صحیح مسلم /حدیث ١٤٣٦ /کتاب النکاح/باب٢٠،
::::: (٢) اور صحیح مسلم کی دوسری روایت ہے (
وَالَّذِی نَفسِی بِیدِہِ مَا مِن رَجُلٍ یَدعُو امرَاَتَہُ اِلی
فِرَاشِہَا فتابٰی عَلِیہِ اِلَّا کَان الَّذِی فِی السَّمَاء ِ سَاخِطًا
عَلِیَہا حَتٰی یَرضیٰ عَنہَا )( اُسکی قسم جِسکے ہاتھ میں میری جان ہے ،
جب کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ بیوی انکار کرے تو
وہ جو آسمان پر ہے اُس عورت سے اُس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک اُسکا خاوند
اُس سے راضی نہیں ہوتا ) صحیح مُسلم / حدیث ١٤٣٦/ کتاب النکاح / باب ٢٠ کی حدیث٤،
اِس حدیث میں ہمارے موجودہ موضوع کے علاوہ
یہ اِس بات کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود نہیں بلکہ آسمانوں
سے اُوپر ہے ، مکمل تفصیل کے لیے میری کتاب ''' اللہ کہاں ہے ؟ ''' کا
مطالعہ اِنشاء اللہ تعالیٰ مفید ہو گا ،
::::: (٣) طلق بن علی رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (
اِذا دَعَا الرَّجُلُ زَوجَتُہ ُ لِحاجَتِہِ فَلتَجَبہ ُ واِن کانت عَلٰی
التَّنُّورِ ) ( جب کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنی ضرورت کے لیے بلائے تو
بیوی خاوند کی بات قُبُول کرے خواہ وہ تنور پر ہی بیٹھی ہو ئی تھی ) صحیح ابن حبان / حدیث ٤١٤٥/کتاب النکاح ، صحیح الترغیب و الترہیب/ حدیث ١٩٤٦ ،
مضمون جاری ہے
:::: چوتھا حق ::: خاوند کی اجازت کے بغیر خاوند کے گھر میں کِسی کو داخل نہ کرے :::::
::::: پانچواں حق ::: خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے :::::
یہ بھی خاوند کے حقوق میں سے ہے ،لہذا خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی
روزہ رکھنا اور کِسی کو خاوند کے گھر میں داخل کرنا بیوی کے لیے جائز نہیں ،
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو حُکم دِیا ہے کہ:::
::::: (١) (
لَا یَحِلُّ لِلمَراَۃِ اَن تَصُومَ وَزَوجُہَا شَاہِدٌ اِلا بِاِذنِہِ
ولا تَاْذَنَ فی بَیتِہِ اِلا بِاِذنِہِ وما اَنفَقَت من نَفَقَۃٍ عَن
غَیرِ اَمرِہِ فاِنہ یؤدی اِلِیہ شَطرُہُ ::: کِسی عورت کے لیے حلال نہیں
کہ وہ اپنے خاوند کی موجودگی میں ، اُس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ رکھے ،
اور نہ ہی کِسی کوخاوند کی اجازت کے بغیرخاوند کے گھر میں داخل کرے ، اور
اگر کوئی عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر کچھ ( اللہ کی راہ میں ) خرچ
کرتی ہے تو اُس خرچ کے ثواب میں سے خاوند کو بھی حصہ ملے گا ) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ کی روایت ہے ، صحیح البخاری/حدیث ٥١٩٥/کتاب النکاح / باب ٨٦،
::::: (٢) (
لا تَصُم المَراۃُ و بَعلُھا شاھدٌ اِلَّا بِاِذنِہِ ، ولا تاذن فی
بَیتِہِ و ھُوَ شاھدٌ اِلَّا بِاِذنِہِ ، و مَا انفَقَت مِن کَسبِہِ مِن
غَیرِ امرِہِ فَاِنَّ نَصف َ اجرِہِ لَہ ُ::: کوئی عورت اپنے خاوند کی
موجودگی میں ، اُس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ رکھے ، اور نہ ہی کِسی
کوخاوند کی موجودگی میں خاوندکی اجازت کے بغیرخاوند کے گھر میں داخل کرے ،
اور اگر کوئی عورت اپنے خاوند کی کمائی میں سے خاوند کی اجازت کے بغیر کچھ (
اللہ کی راہ میں ) خرچ کرتی ہے تو اُسکے ثواب میں آدھا حصہ خاوند کوملے گا
( اور آدھا بیوی کو)) حدیث کا پہلا حصہ ، صحیح البخاری /حدیث ٥١٩٢ /کتاب النکاح /باب٨٤ ، اور مکمل حدیث، صحیح مسلم / حدیث ١٠٢٦ / کتاب الزکاۃ /باب ٢٦
::::: ایک خاص نکتہ ::::: اوپر
نقل کی گئی دوسری حدیث میں فرمایا گیا ( اور نہ ہی کِسی کوخاوند کی
موجودگی میں خاوندکی اجازت کے بغیرخاوند کے گھر میں داخل کرے )''' اِسکا یہ
مطلب نہیں کہ خاوند کی غیر موجودگی میں وہ کِسی کو بھی خاوند کے گھر میں
داخل کر سکتی ہے ، بلکہ خاوند کے موجود ہونے کی شرط کا زیادہ قریبی اور
درست مفہوم یہ ہے کہ جب خاوند موجود ہو گا تو اُس سے اجازت لینا ممکن ہو گا
اور اگر وہ موجود نہیں تو اُس سے اجازت نہیں لی جا سکتی تو ایسے میں بیوی
اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہیں کرے گی ، اور خاوند کے گھر میں کِسی کو داخل
نہیں کرے گی بلکہ خاوند کی غیر موجودگی میں کِسی کو داخل نہ کرنے کے بارے
میں بیوی کو زیادہ تاکید کے ساتھ منع کیا جائے گا ، جیسا کہ دوسری احادیث
میں ایسی عورتوں کے پاس داخل ہونے سے منع کیا گیا ہے جِن کے خاوند اُن سے
دور ہوں ''' الاِمام الحافظ ابن حَجر العسقلانی رحمہُ اللہ تعالیٰ کی '''
فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب النکاح / باب ٨٦ ''' سے ماخوذ ،
اور اِمام النووی رحمہ ُ اللہ تعالیٰ نے ''' شرح صحیح مسلم''' میں لکھا
''' یہ شرط اِس لیے ہے کہ خاوند یا گھر کے دوسرے مالکان کی ملکیت میں
اُنکی اجازت کے بغیر کسی کا دخل نہ ہونے پائے ، اور یہ معاملہ اُن لوگوں کے
بارے میں ہے جِن کے بارے میں بیوی کو عِلم نہ ہو کہ اُسکا خاوند اِن لوگوں
کے اپنے گھر میں آنے جانے پر راضی ہے یا نہیں، اور جِن لوگوںکے داخل ہونے
کے بارے میں خاوند کی اجازت اور رضامندی بیوی کے عِلم میں ہے اُنہیں داخل
کرنے کی اجازت دے سکتی ہے '''
یہاں اُوپر بیان کی گئی حدیث پھر دُہراتا ہوں (
لا طَاعۃَ فِی مَعصِیۃِاللَّہِ ، اِنَّما الطَّاعۃُ فِی المَعرُوفِ :::
اللہ تعالی کی نافرمانی کرتے ہوئے کسی کی بھی تابع فرمانی نہیں کی جا سکتی
،بے شک تابع فرمانی تو صرف نیکی کے کاموں میں ہوتی ہے ) لہذا
اگر خاوند کی غیرت اور اسلامی حمیت مر چکی ہے اور اُسے اپنے گھر میں داخل
ہونے والے اپنی بیوی کے غیر محرم مَردوں کے داخلے پر کوئی اعتراض نہیں تو
بیوی اُنہیں داخل نہیں کرے گی ، ہونا تو یہ چاہیئے کہ بیوی اپنی حیاء اور
عفت کی حفاظت کرتے ہوئے خاوند کی غیرت کو جگائے اور اُسے سمجھائے کہ وہ اُس
کی بیوی اُس کی عِزت ہے ، لہذا اُسے چاہیئے کہ وہ اپنی عِزت کو محفوظ رکھے
، اور اگر خاوند کی غیرت نہیں جاگتی تو بیوی کو خاص طور پر اِس بات سے
مکمل خیال کرنا چاہیئے کہ خاوند کی غیر موجودگی میں کِسی غیر محرم کو گھر
میں داخل کرنا تو بڑی بات ہے اُس کے سامنے آنے سے بھی گریز کرے ، تا کہ اُس
کی عِزت و عِفت محفوظ رہے اور کِسی کو اُس پر کوئی داغ لگانے کا موقع بھی
نہ ملے ، اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کی غیرت و حیاء جو طرح طرح کے فلسفوں
کی غنودگی چڑھا کر ہم سے چھین لی گئی ہے ، ہمیں واپس دِلوا دے ،
اورخاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھنے کے حکم کی حکمت یہ ہے کہ '''
خاوند کے بُنیادی حقوق میں سے ہے کہ وہ جِس وقت چاہے بیوی سے جسمانی و
جنسی لذت حاصل کرے ، اوربیوی کے روزے کی حالت میں وہ اُس کا روزہ افطار
کرنے تک ایسا نہیں کر سکے گا ، اور بیوی کی یہ نفلی عِبادت اُس کے فرائض
میں سے ایک فرض یعنی خاوند کی جسمانی طلب پورا کرنا میں کوتاہی کا سبب بنے
گی ۔
::::: چھٹا حق ::: خاوند کی اولاد ، مال ، عِزت جِس میں خود بیوی کی عِزت وعفت بھی شامل ہے کی حفاظت کرے :::::
اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے (
فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَیبِ بِمَا حَفِظَ اللّہُ
::: پس نیک اور فرمان بردار عورتیں ( وہ ہیں جو ) خاوند کی غیر موجودگی میں
( اُسکے اُن حقوق کی )حفاظت کرتی ہیں جو اللہ نے محفوظ قرار دئیے ہیں ) سورت النِساء / آیت ٣٤،
::::: عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما کا کہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ (
کُلُّکُمْ رَاع ٍ وَکُلُّکُمْ مسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ الاِمَامُ رَاع ٍ
ومسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ وَالرَّجُلُ رَاع ٍ فی اَہلِہِ وہو مسؤولٌ عن
رَعِیَّتِہِ وَالمَراَۃُ رَاعِیَۃٌ فی بَیتِ زَوجِہَا ومسؤولۃٌ عن
رَعِیَّتِہَا وَالخَادِمُ رَاع ٍ فی مَالِ سَیِّدِہِ ومسؤولٌ عن
رَعِیَّتِہِ ::: تم میں ہر کوئی محافظ اور ذمہ دارہے ، اور ہر کِسی سے اپنی
اپنی رعایا (یعنی جِس جِس کی نگرانی و حفاظت اُس کے ذمے تھی ) کے بارے میں
پوچھا جائے گا ( یعنی اُن کے حقوق کی ادائیگی اور اُن کے کچھ کاموں کے
بارے میں اِس نگران و محافظ سے پوچھ ہو گی اور وہ دُنیا اور آخرت میںجواب
دہ ہے ) ، اِمام ( دِینی اور دُنیاوی راہنما و حُکمران) اپنی رعایا کا ذمہ
دار ہے اور اُس کے بارے میں اُسے پوچھا جائے گا ، مَرد اپنے گھر والوں کا
ذمہ دار ہے اوراپنی رعایا (یعنی گھر والوں ) کے بارے میں جواب دہ ہے ، اور
عورت اپنے خاوند کے گھر کی ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ
ہے ، اور ملازم اپنے مالک کے مال ( کی حفاظت اور تمام حقوق کی ادائیگی ) کا
ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے ، )))
عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ((( وَالرَّجُلُ رَاع ٍ فی مَالِ
ابِیہِ ومسؤولٌ عَن رَعِیَّتِہِ وَکُلُّکُم رَاع ٍ ومسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ
::: آدمی اپنے والد کے مال کا ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں جواب
دہ ہے ، اور تم سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ
ہے ))) صحیح البخاری / حدیث ٨٥٣ /کتاب الجمعۃ / باب ١١ ،
عورت ذمہ دار ہے کا معنیٰ یہ نہیں کہ
وہ حکمران ہے جو اور جیسا چاہے گھر میں کرتی رہے ، بلکہ اِس کا مطلب یہ کہ
گھر کے نظم و نسق ، صفائی اور پاکیزگی ، اولاد کی تربیت اللہ اور رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے کرے ، اور کھانے پینے
، پہننے اوڑھنے اور دیگر اخراجات میں خاوند کے مال کو میانہ روی اور
واقعتا ضرورت کی حد تک خرچ کرے ، رہنے کی جگہ جہاں وہ آباد ہے اُس کو خاوند
اُس کے والدین اور اولاد کے لیے'' گھر '' بنائے رکھے ، ایسا نہ ہو کہ
خاوند جب بھی اپنے ٹھکانے کی طرف واپس آتا ہو تو یہ سوچتا ہو کہ کاش کچھ
وقت اور باہر گذر جاتا تو اچھا تھا ، کہ وہاں جا کر کیا ملے گا ، منہ جھاڑ
سر پہاڑ بیوی ، سلام نہ دُعا ، اور شکایتوں کا ٹوکرا ، کچھ کہہ دِیا تو وہ
کھاناملے گا جو مجھے پسند نہ ہو ، وغیرہ وغیرہ ، اِن معاملات میں سے کِسی
بھی معاملے میں اگر بیوی کوتاہی کرے گی تو وہ جواب دہ ہے ۔
Comments
Post a Comment